پहाڑوں کے دامن میں، جہاں زمانوں پرانی کہانیاں ہواؤں میں گونجتی تھیں، ایک چھوٹا سا گاؤں تھا 'بستیِ سناٹوں کی'. وہاں کی خاموشی کو چیروں کا شور ہی توڑتا تھا، جو ہمیشہ کسی نہ کسی مصیبت کا سنا دیا کرتے تھے۔ اس گاؤں میں رہنے والے لوگ سادہ اور کم گو تھے، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک خوف چھپا ہوتا تھا، جیسے کوئی اندھیرا راز ان کے دلوں میں دبکا ہو۔
ایک دن اسی گاؤں میں ایک نوجوان لڑکی، سدرہ، شہر سے پڑھائی مکمل کرکے واپس آئی۔ اس کی آنکھوں میں دنیا دیکھنے کا اشتیاق تھا، مگر گاؤں کی مردہ خاموشی نے اسے گھیر لیا۔ کچھ دنوں بعد، سدرہ کو عجیب سی باتیں محسوس ہونے لگیں۔ راتوں کو گھر کی چھت سے عجیب سی سسکاریاں آتیں، پرانی کھڑکیوں کے شیشے خودبخود ہلتے اور گاؤں کے کنوئں سے عجیب بو اٹھتی۔
سدرہ نے جب گاؤں والوں سے پوچھا تو انہوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی، مگر اس کی ضد کے آگے جھک گئے۔ ایک بوڑھا شخص، جو گاؤں کا سب سے بزرگ تھا، سدرہ کو لے کر ایک ویران قبرستان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ یہ سناٹے اور چیخیں اسی قبرستان سے آتی ہیں۔ "یہ قبرستان جنوں کا مسکن ہے،" بوڑھے نے بتایا، "کئی سال پہلے کالے جن کی وجہ سے یہ گاؤں تباہ ہونے کے قریب تھا، مگر ہمارے بزرگ نے انہیں اس قبرستان میں بند کر دیا تھا۔ مگر اب لگتا ہے جنوں کی قید کمزور پڑ رہی ہے۔"
سدرہ کو یہ بات سن کر یقین نہیں آیا، مگر اس رات پھر وہی سسکاریاں آئیں، اس بار اتنی تیز کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اگلی صبح اس نے گاؤں والوں سے مل کر جنوں کو قابو میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بوڑھے نے بتایا کہ جنوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک خاص تعویذ کی ضرورت ہے، جو گاؤں کے مندر میں موجود ہے۔
رات کے وقت سدرہ مندر گئی۔ مندر کی خاموشی اسے ڈرا رہی تھی، مگر جنوں کے خوف نے اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر دیا۔ مندر کے اندر گھٹاٹ چھایا تھا، صرف بتوں کی مورتیوں کی آنکھوں سے ایک عجیب سی چمک آرہی تھی۔ سدرہ نے ہمت کر کے تعویذ تلاش کرنا شروع کی اور آخر کار اسے ایک پرانی صندوقچی میں مل گیا۔
تعویذ لے کر سدرہ قبرستان کی طرف بھاگی۔ وہاں پہنچ کر اس نے تعویذ پڑھا اور اس پر دم مارا۔ پھر عجیب سی روشنی پھیلی اور قبرستان کی زمین پھٹ گئی۔ ایک سیاہ دھواں اس پھاٹ سے نکلا اور آسمان کی طرف بلند ہوا۔ چیخوں کی ایک بھیانک گونج سنائی دی اور پھر سناٹا چھا گیا۔
صبح ہونے پر گاؤں والے قبرستان پہنچے تو وہاں صرف ایک بڑا سا گڑھا رہ گیا تھا۔ سدرہ نے گاؤں کو جنوں سے نجات دلا دی تھی، مگر اس رات پھر سے سسکاریاں آنے لگیں۔ اب وہ مختلف تھیں، زیادہ دردناک اور قریب سے محسوس ہوتی تھیں۔ سدرہ نے گھبرا کر باہر جھانکا تو دیکھا کہ قبرستان کا گڑھا دوبارہ بند ہو چکا ہے، مگر اس کے اوپر ایک عورت کی سفید سی چادری پڑی ہوئی ہے۔
چادروں کو ہٹاتے ہی سدرہ کی چیخ نکل گئی۔ وہ چادری کے نیچے ایک عورت
وہ چادری کے نیچے ایک عورت کی سڑی ہوئی لاش نہیں تھی، بلکہ ایک زندہ عورت تھی، جس کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔ وہ عورت بولی، "تم نے مجھے تو قید کر دیا، لیکن باقی جن اب بھی آزاد ہیں۔" یہ وہ عورت تھی جس نے جنوں کو گاؤں میں بلايا تھا، وہ جنوں کی ملکہ تھی اور اب وہی خود جن بن چکی تھی۔
سدرہ کو سمجھ آ گیا کہ جنوں کو ختم کرنا ہے نہیں تھا، بس انہیں قید کرنا تھا۔ اب یہ جنوں کی ملکہ آزاد تھی اور گاؤں پہلے سے بھی زیادہ خطرے میں تھا۔ سدرہ گاؤں والوں کے پاس لپکی اور انہیں جنوں کی ملکہ کے بارے میں بتایا۔ گاؤں والے خوفزدہ ہو گئے، وہ جانتے تھے کہ ایک جن کو تو قابو میں کر لیا گیا تھا لیکن اب انہیں ایک اور طاقتور دشمن کا سامنا تھا۔
بوڑھے نے گاؤں والوں کو جمع کیا اور مشورہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جنوں کی ملکہ کو دوبارہ قید کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن اس بار پہلے سے زیادہ مضبوط تعویذوں اور منتروں کی ضرورت ہو گی۔ سدرہ نے شہر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ کسی عالم سے مدد لے سکے۔ وہ گاؤں سے نکلی تو جنوں کی ملکہ نے زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔ اس کی ہنسی گونجتی ہوئی دور تک پہنچی اور سدرہ کو لگا جیسے وہ اسے چیلنج کر رہی ہے۔
شہر پہنچ کر سدرہ نے ایک عالم کو ढूंढा (ڈھونڈا) جو جنوں اور کالے جادو کے علم سے واقف تھا۔ اس نے عالم کو ساری کہانی سنائی اور مدد کی درخواست کی۔ عالم نے سدرہ کو بتایا کہ جنوں کی ملکہ کو قابو کرنے کے لیے ایک خاص تعویذ بنانا ضروری ہے، جس کے لیے بہت سی نایاب چیزیں درکار ہوں گی۔ ان چیزوں کو حاصل کرنے میں کئی دن لگ گئے اور سدرہ اس دوران شہر میں ہی رہی۔
آخر کار جب تمام چیزیں جمع ہو گئیں تو عالم نے تعویذ بنانا شروع کیا۔ یہ تعویذ بہت طاقتور تھا اور اسے بنانے میں کئی دن لگے۔ تعویذ بن کر تیار ہوا تو اس میں ایک عجیب سی چمک تھی اور اس سے ایک نور نکल رہا تھا۔ سدرہ وہ تعویذ لے کر گاؤں واپس آئی۔
گاؤں پہنچتے ہی جنوں کی ملکہ کی ہنسی سنائی دی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکی تھی اور گاؤں پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار تھی۔ گاؤں والے خوف سے کانپ رہے تھے، لیکن سدرہ نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے تعویذ کو بلند کیا اور اس پر دم مارا۔
نور کی ایک تیز لہر پھیلی اور جنوں کی ملکہ چیخنے لگی۔ وہ لڑنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن تعویذ کی طاقت کے سامنے اس کی کوئی پੇش نہ چلی۔ آخری ایک تیز چیخ کے ساتھ وہ راکھ کا ढیر بن کر رہ گئی۔
گاؤں والے خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ سدرہ نے انہیں بچا لیا تھا۔ لیکن اسے ایک عجیب سی خالیपन محسوس ہو رہی تھی۔ جنوں کی ملکہ تو ختم ہو گئی تھی، لیکن کیا جن واقعی میں ختم ہو چکے تھے؟
کچھ دن بعد، رات کے وقت سدرہ کو پھر سے وہی سسکاریاں سنائی دیں، اب وہ پہلے سے بھی کمزور تھیں، جیسے کوئی مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ سدرہ کی آنکھوں میں ایک عزم کی چمک آئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کہانی کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا ہے، اور جنوں سے لڑائی ابھی باقی ہے۔ وہ اس راز کو تلاش کرنے کا عہد کیا کہ آخر یہ جن کیسے
وجود میں آتے ہیں، اور انہیں ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا طریق ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن سدرہ نے گاؤں والوں کو جمع کیا اور انہیں اپنے عہد کے بارے میں بتایا۔ گاؤں والے اس کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے جنوں سے لڑنے کا جواز سیکھ لیا تھا اور اب وہ اس خوف کے خلاف لڑنے کے لیے تیار تھے۔
سدرہ نے شہر کے کتب خانوں اور پرانے لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ اس نے جادو اور جنوں سے متعلق قدیم کتابوں کا مطالعہ کیا اور گاؤں کے بزرگوں سے کہانیاں سنیں۔ ہفتوں کی تلاش کے بعد، اسے ایک پرانی کتاب میں ایک کہانی ملی۔ کہانی کے مطابق، جن اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان لالچ، نفرت، اور بربریت جیسے منفی جذبات کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ منفی توانائی جنم लेती (جنم لیتی) ہے اور کالے جادو کی رسوموں کے ذریعے بلائی جا سکتی ہے۔
اس دریافت نے سدرہ کو ایک نئی امید دی۔ جنوں کو ختم کرنے کے لیے انہیں ان کے جڑ سے مٹانا ضروری تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گاؤں والوں کو نفرت اور لالچ جیسے منفی جذبات سے پاک کرنا ہو گا۔ سدرہ نے گاؤں والوں کو یہ کہانی سنائی اور انہیں بتایا کہ جنوں سے لڑنے کا یہی طریقہ ہے۔
اس مقصد کے لیے سدرہ نے گاؤں میں امن و خوشحالی پھیلانے کی کوشش کی۔ گاؤں والوں کو مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دی گئی۔ گاؤں میں تعلیم اور ہنر سکھانے کا نظام بھی شروع کیا گیا تاکہ لوگوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جا سکے۔
کچھ عرصے بعد گاؤں میں ایک واضح تبدیلی نظر آنے لگی۔ لوگ پہلے سے زیادہ مہذب اور مددگار بن گئے تھے۔ سدرہ کو اب وہ کمزور سسکاریاں بھی سنائی نہیں دیں۔ لیکن وہ جانتي تھی کہ یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی ہے۔ جن اب بھی کہیں نہ کہیں موجود تھے، اور اگر منفی جذبات دوبارہ ابھرنے لگے تو وہ واپس آسکتے تھے۔
اس لیے سدرہ نے گاؤں میں امن و خوشحالی برقرار رکھنے کی ذمہ داری لی۔ وہ گاؤں والوں کو مثبت رویے کی اہمیت سکھاتی رہی اور انہیں جنوں کے خلاف لڑائی کے لیے ہمیشہ تیار رہنے کی ترغیب دیتی رہی۔ اس طرح "بستیِ سناٹوں کی" گاؤں ایک نئی شکل میں ابھرا، جہاں خاموشی خوف کی علامت نہیں رہی، بلکہ امن و سکون کی نشانی بن گئی۔ سدرہ، جو شہر سے پڑھائی کرکے واپسی پر ایک عام سی لڑکی تھی، اب اپنے گاؤں کی محافظ بن چکی تھی، ایک ایسی محافظ جو جنوں سے لڑنے کے لیے نہ صرف تعویذوں بلکہ علم اور مثبت رویے کا استعمال کرتی تھی۔
برسوں بیت گئے، سدرہ اب گاؤں کی ایک عزت دار شخصیت تھیں۔ ان کی قیادت میں گاؤں ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ ایک دن ایک اجنبی شخص گاؤں میں آیا۔ وہ مہذب لباس پہنے ہوئے تھا اور اس کی بات چیت میں ایک عجیب سی چالاکی تھی۔ اس نے گاؤں والوں کو ترقی کے بڑے بڑے وعدے کیے اور انہیں نئے کاروبار میں لگانے کی پیشکش کی۔
گاؤں والے لالچ میں آ گئے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ شخص ان کی زندگیوں کو بدل دے گا۔ سدرہ کو شروع سے ہی یہ شخص مشکوک لگا، لیکن گاؤں والوں کو اس پر یقین نہیں آیا۔ انہوں نے سدرہ کی باتوں کو نظر انداز کر دیا اور اس شخص کے ساتھ سودے بازی شروع کر دی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گاؤں کا ماحول بدلنے لگا۔ لوگوں میں لالچ اور نفرت پھیلنے لگی۔ وہ ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے اور گاؤں میں پہلے والی خاموشی لوٹنے لگی، مگر اس بار یہ خاموشی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ شک کی وجہ سے تھی۔
ایک رات، سدرہ کو وہی کمزور سسکاریاں دوبارہ سنائی دیں۔ لیکن اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں۔ سدرہ کو احساس ہوا کہ جن واپس آ رہے ہیں۔
اس نے فوراً گاؤں والوں کو جمع کیا اور انہیں جنوں کے واپسی کا خطرہ بتایا۔ لیکن گاؤں والے اب وہ پہلے والے لوگ نہیں رہے تھے۔ انہوں نے سدرہ پر الزام لگایا کہ وہ ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس شخص پر اندھا اعتماد کرنے کی بات کہی۔
سدرہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ تنہا ہی لڑے گی۔ وہ اس شخص کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔
اس شخص نے اپنا اصلی روپ دکھایا۔ وہ دراصل ایک جادوگر تھا جو جنوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے گاؤں والوں کو لالچ کا لالچ دے کر ان کے اندر نفرت بھر دی تھی تاکہ جنوں کو دوبارہ بلا سکے۔
جادوگر اور سدرہ کے درمیان ایک طاقتور لڑائی ہوئی۔ جادوگر بہت طاقتور تھا لیکن سدرہ کے پاس علم اور گاؤں والوں کی خوشیوں کی یادیں تھیں۔ وہ لڑتی رہی اور جادوگر کو بتایا کہ وہ گاؤں والوں کی امیدوں کو کبھی نہیں توڑ سکے گا۔
سدرہ کی باتوں نے گاؤں والوں کے دلوں کو چھو لیا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ سدرہ کی مدد کے لیے آگئے۔ جادوگر ان کی یکجہتی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ سدرہ ان لوگوں کو دوبارہ متحد کر سکے گی۔
گاؤں والوں کے تعاون سے سدرہ نے جادوگر کو شکست دے دی۔ جادوگر راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا اور جن اس کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد، گاؤں والوں نے سدرہ سے معافی مانگی اور اسے دوبارہ اپنی رہنما تسلیم کر لیا۔ سدرہ نے انہیں بتایا کہ جنوں کو ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کیا جا سکتا، لیکن انہیں علم اور مثبت رویے سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
اس دن سے، "بستیِ سناٹوں کی" گاؤں میں دوبارہ کبھی جن نہیں آئے۔ یہ گاؤں علم اور اتحاد کی مثال بن گیا۔ سدرہ، جو کبھی ایک عام سی لڑکی تھی، اب ایک لیجنڈ بن چکی تھی۔ اس نے ثابت کر دیا تھا کہ تعویذ اور جادو سے زیادہ طاقتور علم اور وہ جذبہ ہے جو نفرت اور ل
#horrorstory
#urdustories
Comments
Post a Comment